Tuesday, January 4, 2022

سعودی عرب کا وہ گاؤں جہاں جدید دور کی کوئی سہولت نہیں، آپسی رابطے کیلئے بھی چیخ و پکار کا سہارا لیتے ہیں

 

سعودی عرب کا وہ گاؤں جہاں جدید دور کی کوئی سہولت نہیں، آپسی رابطے کیلئے بھی چیخ و پکار کا سہارا لیتے ہیں

سعودی عرب کا وہ گاؤں جہاں جدید دور کی کوئی سہولت نہیں، آپسی رابطے کیلئے بھی چیخ و پکار کا سہارا لیتے ہیں

   

ریاض (ویب ڈیسک)    سعودی عرب کے کوہستانی علاقے میں ایک ایسا گائوں بھی سامنے آیا جہاں آج بھی لوگ   قدیم ترین پسماندہ انداز کی زندگی گزار رہے ہیں، مٹی کے بنے مکانات غار نما لگتے ہیں، یہاں ٹیلیفون کا رواج نہیں، بنیادی وسائل کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں اور  یہاں کے باشندے ایک دوسرے سے رابطے کے لیے چیخ و پکار کا طریقہ اپناتے ہیں۔

اردو نیوز کے مطابق مقامی صحافیوں کی ایک ٹیم نے جازان صوبے کی الریث کمشنری کے القھر کوہستانی علاقے کے ’الشامیہ‘ گاوں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ الشامیہ تک جانا جان جوکھم کا کام ہے، دھار دار چٹانوں سے بھرے راستے سے گزر کر بڑی مشکل سے قریہ پہنچے۔ دن بھر چل کر راستہ طے کیا تھا اور پوری کوشش تھی کہ کسی طرح سورج غروب ہونے سے قبل قریے تک رسائی حاصل کرلی جائے۔ 

اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الریث قریے کے مکانات بجلی سے محروم ہیں، مکانات انسانی رہائش سے کہیں زیادہ بھیڑوں کے باڑے سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔لوگ ٹرانسپورٹ کے لیے گدھے استعمال ہوتے ہیں- یہاں کی بولی مشکل ہی سے سمجھ میں آتی ہے، نوجوان یہ بتاتے ہوئے شرماتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی،

گائوں کے سکول میں پرائمری تک تعلیم کا رواج ہے، مڈل یا ثانوی کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمندوں کو علاقے سے نکلنا پڑتا ہے، یحیی الریثی نامی ایک بزرگ نے بتایا کہ وہ ذیابیطس، دمے اور سن رسیدگی جیسے لاعلاج امراض میں مبتلا ہیں۔ ان کا خاندان خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے۔ان کی آمدنی کا واحد وسیلہ باپ کی سماجی کفالت سے ملنے والی رقم ہے۔ یہ 1100 ریال سے زیادہ نہیں۔ وہ پانچ بھائی ہیں اور سب کے سب بے روزگار ہیں۔ ان میں سے ایک معذور ہے جس کی وجہ سے اسے سماجی کفالت کا وظیفہ ملتا ہے۔

No comments:

Post a Comment